حکایتی جانسوز از حجت الاسلام و المسلمین توسط «شیخ حسین انصاریان» :«در لحظات آخر، همه بدن امام حسین(علیه السلام) زخم برداشته بود. یک ملعون شقی از عمرسعد خواست که کار امام را تمام کند. ولی حضرت با یک ضربه پایش را قطع کرد و افتاد زمین. حضرت او را نکشت و به او فرمود...»
امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد یزید کے افواج نے سارے خیموں کو جلا دیا اور اہل بیت اطہار کے بقیہ افراد پر مشتمل قافلے اور سارے بچوں اور خواتین کو قیدی بنا کر ابن زیاد کے پاس کوفہ لے گئے۔ یہ نوحہ شام غریباں اور انہی قیدیوں کے دکھ درد کی یاد تازہ کر رہا ہے۔(5:16)
اس نوحے کو واقعۂ کربلا کے مظالم کی یاد میں پڑھا گیا ہے جو امام حسین(ع) اور ان کے ساتھیوں پر کیے گئے۔ حسین ابن علی عليہ السلام کے ساتھ ان کے اہل خانہ اور بچے بھی تھے۔ ان بچوں میں سے ایک امام علیہ السلام کے شش ماہہ فرزند حضرت "عبداللہ ابن الحسین" تھے جو علی اصغر(ع) کے نام سے مشہور ہیں۔ وہ پیاس کی شدت سے رو تے رہتے تھے۔ ان کی پیاس بجھانے کے لئے نہ تو خیموں میں پانی تھا اور نہ ہی ان کی والدہ "رباب" کے سینے میں دودھ تھا جو ان کو پلایا جائے۔ امام (ع) نے علي اصغر کو گود میں لیا اور دشمن کی طرف چل پڑے؛ یزیدی دشمنوں کے سامنے کھڑے ہوگئے اور فرمایا: "اے لوگو! اگر تم مجھ پر رحم نہیں کرتے تور اس طفل پر رحم کرو..." لیکن گویا کہ سنگدل دشمنوں کے دلوں پر رحم کا بیج بویا ہی نہ گیا تھا اور دنیا کی تمام رذالتیں اور پستیاں ان کے وجود کی گہرائیوں تک گھر کرگئی تھیں؛ کیونکہ انھوں نے فرزند رسول(ص) کو چلو بھر پانی دینے کے بجائے بنو اسد کے ایک تیرانداز کو کام تمام کرنے کا حکم دیا (6:26)